مزدوروں کا استحصال — 16 ہزار کی تنخواہ اور “معاشی موت”
سرگودھا (ملک فضل سے) — ہمارے ملک میں مزدور طبقہ ہمیشہ سے معاشی و سماجی ناانصافیوں کا شکار رہا ہے۔ کبھی کسی فیکٹری میں استحصال ہوتا ہے، کبھی کسی ادارے میں قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ مگر جو منظر سرگودھا میں سامنے آیا ہے وہ کسی ایک ادارے کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک وسیع اور خطرناک رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ نجی سکیورٹی کمپنی “جرار” کے زیرِ اہتمام مسلم کمرشل بینک (MCB) کی مختلف برانچز میں کام کرنے والے سینٹری ورکرز کئی برسوں سے صرف 14 سے 16 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ اعداد و شمار محض ایک کہانی نہیں بلکہ پورے طبقے کے دکھوں کا نوحہ ہیں۔ جب ملک میں مہنگائی عروج پر ہو، بجلی، گیس، پٹرول اور آٹے دال کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوں، ایسے میں 14 سے 16 ہزار روپے میں ایک گھر کا چولہا کیسے جل سکتا ہے؟ ایک شخص جو آٹھ گھنٹے محنت کرتا ہے، پسینہ بہاتا ہے، شہر کی سڑکوں اور اداروں کو صاف رکھتا ہے، اسے اتنا بھی معاوضہ نہیں ملتا کہ وہ اپنے بچوں کو دو وقت کا کھانا کھلا سکے۔
قانون اور حقیقت کا تضاد
حکومتِ پنجاب نے باقاعدہ نوٹیفکیشن کے ذریعے کم از کم اجرت 40 ہزار روپے مقرر کی ہے۔ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں۔ محکمۂ لیبر کے دفاتر میں بڑے بڑے بینرز لگے ہوتے ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے کہ کوئی ادارہ اس قانون کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ لیکن عملی میدان میں سچ اس کے برعکس ہے۔
جرار کمپنی کے سینٹری ورکرز کو نہ تو سرکاری طور پر طے شدہ کم از کم اجرت مل رہی ہے، نہ سوشل سکیورٹی، نہ ورکر ویلفیئر فنڈ، نہ EOBI اور نہ ہی کوئی طبی سہولت۔ گویا وہ محنت تو کر رہے ہیں مگر مزدور نہیں بلکہ غلاموں کی طرح۔
“ہم مزدور نہیں، یتیم لوگ ہیں”
احتجاج کرنے والے ایک بزرگ ملازم کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ کہہ رہے تھے:
“میں بیس سال سے اسی بینک میں صفائی کا کام کر رہا ہوں۔ اب عمر ہو گئی ہے، ہڈیاں جواب دے رہی ہیں لیکن آج بھی وہی چودہ ہزار تنخواہ ملتی ہے۔ بچے اسکول نہیں جا سکتے، دوائیں نہیں خرید سکتا، اور اگر کبھی آواز اٹھاؤں تو کہا جاتا ہے ملازمت چھوڑ دو۔”
یہ ایک فرد کی نہیں، درجنوں محنت کشوں کی کہانی ہے جو روزانہ صبح سویرے بینکوں کی صفائی کرتے ہیں، ٹوائلٹ دھوتے ہیں، برآمدے چمکاتے ہیں، اور دن کے اختتام پر تھکے ہارے اپنے گھر جاتے ہیں — جہاں ان کے بچے منتظر ہوتے ہیں کہ شاید آج باپ کچھ اضافی لے کر آئے۔ مگر کیا لائے؟ چودہ ہزار تنخواہ میں کسی خواب کی تعبیر ممکن نہیں۔
محکمہ لیبر کی مجرمانہ خاموشی
سوال یہ ہے کہ اگر حکومت نے کم از کم تنخواہ مقرر کر رکھی ہے تو اس پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوتا؟ اگر قوانین موجود ہیں تو پھر ان پر کوئی گرفت کیوں نہیں؟ محکمہ لیبر کا عملہ کہاں ہے؟ وہ دفتر میں بیٹھ کر کس چیز کی تنخواہیں لے رہا ہے؟ یہ وہ سوال ہیں جو ہر مزدور کے دل میں ہیں مگر ان کا جواب کوئی نہیں دیتا۔
یہی وہ خاموشی ہے جو طاقتور اداروں کو حوصلہ دیتی ہے کہ وہ مزدور کا خون پسینہ سستا خریدیں اور قانون کو جوتے کی نوک پر رکھیں۔
درخواستیں، اپیلیں اور بے حسی
متاثرہ ملازمین نے اس ظلم کے خلاف وزیراعظم پاکستان، وزیراعلیٰ پنجاب، کمشنر سرگودھا ڈویژن سمیت متعلقہ حکام کو متعدد درخواستیں بھیجی ہیں۔ مگر جواب میں صرف خاموشی ملی ہے۔ کوئی بازپرس نہیں ہوئی، کوئی معائنہ نہیں کیا گیا، کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
مزدوروں کا کہنا ہے کہ وہ مزید خاموش نہیں رہ سکتے۔ اگر حکام بالا نے فوری نوٹس نہ لیا تو وہ اپنی آواز سڑکوں پر لے جائیں گے۔ اور جب مزدور سڑکوں پر آتا ہے تو تاریخ گواہ ہے کہ بڑے بڑے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔

ریاست کا اصل امتحان
ریاست کی طاقت کا اندازہ اس سے نہیں لگتا کہ وہ بڑے کاروباری اداروں کو کیا سہولتیں دیتی ہے، بلکہ اس سے لگتا ہے کہ وہ اپنے کمزور شہریوں کے ساتھ کتنا انصاف کرتی ہے۔ اگر ایک بینک اور ایک نجی کمپنی مل کر ایک مزدور کو چودہ ہزار روپے پر زندہ رہنے پر مجبور کر سکتے ہیں تو یہ صرف مزدور کا مسئلہ نہیں — یہ ریاست کے وجود پر سوالیہ نشان ہے۔
مزدوروں کی آواز دبے گی نہیں
یہ آوازیں وقتی طور پر دبائی جا سکتی ہیں، لیکن ختم نہیں کی جا سکتیں۔ جن ہاتھوں سے شہر صاف ہوتا ہے، جن ہاتھوں سے بینکوں کے دروازے چمکتے ہیں، وہ ہاتھ اگر کبھی مکے بن جائیں تو بڑے بڑے ایوان ہل سکتے ہیں۔
حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے۔ وہ نہ صرف اس کیس میں فوری کارروائی کرے بلکہ پورے صوبے میں ایک مؤثر مانیٹرنگ نظام بنائے۔ تاکہ کوئی کمپنی کسی مزدور کا حق نہ کھا سکے، کوئی بینک یا ادارہ قانون کی خلاف ورزی نہ کرے، اور ہر شہری کو عزت اور حق کے مطابق اجرت ملے۔
کالم نگار: ملک فضل
مقام: سرگودھا
تاریخ: 22 اکتوبر 2025
