ڈاکٹر فیصل مسعود ٹیچنگ اسپتال سرگودھا کا مرکزی دروازہ 32

ڈاکٹر فیصل مسعود ٹیچنگ اسپتال سرگودھا میں سی ٹی اسکین مشین کا سکینڈل — عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے حرام خوری کی داستان

سی ٹی اسکین مشین اسکینڈل — سرگودھا کے عوام کے ٹیکس کا پیسہ لُٹ گیا

سرگودھا (کالم: اسرار احمد وڑائچ) — آخر کار وہ دن آ ہی گیا جس کا سرگودھا کے عوام برسوں سے انتظار کر رہے تھے۔ ڈاکٹر فیصل مسعود ٹیچنگ اسپتال (سابقہ ڈی ایچ کیو) کے ایم ایس ڈاکٹر شہباز نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا ہے کہ اسپتال میں سی ٹی اسکین مشین نصب کرنے کا عمل شروع ہونے جا رہا ہے۔ تاہم یہ اطلاع ایک پرانے زخم کو پھر سے تازہ کر گئی ہے — وہ زخم جو اس شہر کے سادہ دل عوام کو کرپٹ انتظامیہ نے دیے۔

کرپشن کی جڑیں — کمیشن مافیا کا کردار

ذرائع کے مطابق 2017-18 میں اسپتال کے لیے سی ٹی اسکین مشین خریدی گئی۔ لیکن افسوس کہ یہ مشین آج تک نصب نہیں ہو سکی۔ اصولاً مشین کی خریداری سے قبل ایس این ای (SNE) کی منظوری اور عمارت کی تیاری ضروری تھی، مگر یہاں سب کچھ الٹا ہوا۔ مشین پہنچنے کے بعد کمیشن کھا کر اسے اسٹور میں پھینک دیا گیا۔

اس وقت اسپتال کے بجٹ، اکاؤنٹس اور ایم ایس آفس کے چند بااثر اہلکاروں نے اس عمل سے کروڑوں روپے کمائے۔ ان میں ملک شفیع، اخلاق الحسن اور چند مخصوص ٹھیکیداروں کے نام نمایاں بتائے جاتے ہیں۔ عوامی علاج کے پیسوں پر یہ حرام خوری کئی سالوں تک جاری رہی۔

وارنٹی ختم، مگر جعلی بل جاری

حیرت انگیز طور پر، سی ٹی اسکین مشین کی وارنٹی بغیر استعمال کے ختم ہو گئی۔ کرپٹ مافیا نے مرمت کے جعلی بل بنوا کر مزید سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا۔ مشین سات سال تک وارڈز میں ’’ادھر اُدھر‘‘ دھکی جاتی رہی مگر کبھی استعمال نہ ہوئی۔

عوامی سوالات — ایم ایس ڈاکٹر شہباز کے نام

اگر موجودہ ایم ایس واقعی اصلاح کے خواہاں ہیں تو انہیں عوام کے سامنے یہ سوالات رکھنے ہوں گے:

جب مشین انسٹال ہی نہیں ہوئی تو پوری ادائیگی کس بنیاد پر کی گئی؟

متعلقہ فرم کی سی ڈی آر ضبط کیوں نہ کی گئی؟

کمپنی کو بلیک لسٹ کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟

کن افسران اور ٹھیکیداروں نے کمیشن لیا؟

احتساب ناگزیر ہے

اگر یہ تحقیقات شفاف طریقے سے نہ ہوئیں تو عوام کا اعتماد مزید متزلزل ہوگا۔ سرگودھا کے شہری یہ حق رکھتے ہیں کہ مکمل آڈٹ رپورٹ، ایف آئی آر اور ذمہ داروں کے نام سامنے آئیں۔ یہ کیس صرف ایک مشین کا نہیں بلکہ پورے نظام کی ناکامی کا عکاس ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ محکمہ صحت پنجاب اور اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ حرکت میں آئیں اور اس ’’سی ٹی اسکین اسکینڈل‘‘ کے اصل کرداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں